خلافت کا دور

 امت مسلمہ کی خوش نصیبی کہ ایک طرف امیرالمومنین ملا  عمر ہیں اور دوسری طرف خلیفہ ابو بکربغدادی  ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرتی  بے حسی ، لا قانونیت ، مذھبی بے رہروہی ،انصاف اور قانون کے قتل عام  کے سبب پیدا ہوۓ .اور ان کی پیداش کا ذمدار مسلم دنیا کا سہل پسند اور فراغ ولعقل حکمران طبقہ  ہیں. حقیقیت میں امت مسلمہ پستی ، اخلاقی ،معاشرتی اور جہالت کے اس گھڑھ میں گرتی جا رہی ہے جہاں سے نکلننے میں شاہد اب تو لمبا عرصہ درکار ہو.عرب ممالک جن کو اپنی دولت پہ غرور تھا کچھ ہی مدت میں تاریخ کی پسماندگی کا حصہ بن جائیں گے.شام ، لیبیا ، عراق ، تو ابھی شروعات ہیں آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے.دشمنان اسلام   نے جس آگ کو مسلم دنیا میں ہوا دی ہے وہ اب آسانی سے نی بجھنے والی. جسیا کہ شاھرنے کہا ہے . گھر کو آگ لگا دی گھر کے چراغ  سے. پہلی بات تو یہ ہے خلیفہ ابو بکر بغدادی کو اپنی سلطنت کو طول ارض دینے کے لئے جس کا اظہار وہ ایک نقشہ میں کر چکے ہیں
اپنی تلوار کی دھار کا نشانہ   جہاں امت مسلمہ کے ہزاروں لوگوں کو بنانا پڑھے  گا وہاں اپنے خواب کو پےتکمیل تک پونچا نے   کے لئے  پاسداران انقلاب ،حزب الله ، لمملكة العربية السعودية،اسلامی دنیا کی واحد اٹمی طاقت اسلامی جمہوری پاکستان کی افواج سے جنگوجدل کا بازار گرم کرنا پڑھے گا. اور یہ بھی ممکن ہے امت کو امیرالمومنین ملا عمر اور خلیفہ ابو بکر بغدادی کے درمیان میں معرکہ عنان حکومت دیکھنے کو مل جاۓ . اب ایک امت کے دو   امیرالمومنین تو نہیں ہو سکتے. یہ میں مذاق میں نہیں لکھ رہا . اسلامی تاریح اس بات کی گواہ ہے. پھر زندہ بچے تو اہل مغرب بھی ہیں.سچی بات ہے میں اہل مغرب کو حرف تنقید نہیں بنانا چاہتا ہوں.
ایک صدیکے اندر  اہل معرب نے اپنے فروغی ،مذبی اور معاشرتی اختلافات کو بھلا کر اپنے خطے کے لوگوں کے جس اتحاد اور محبت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی .ایک مزدور سے لیکر سربراہ تک کے حقوق کو مساوات کے سانچے میں ڈھال دیا.اپنی تہذیب میں رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کو ختم کیا. غریب نے امیر کو اور امیر نے غریب کو حقوق دلانے میں مدد کی. ایک کے دشمن کو سب کا دشمن اور ایک کے دوست کو سب دوست مانا.یورپین یونین کا قیام نے اہل معرب  کے درمیان نہ صرف سرحدوں کے فاصلے کو مٹایا بلکہ باہمی رشتوں کو اور یوروپ کی تہذیبوں کو قریب لانے میں مدد کی.
دوسری جانب اہل اسلام نےپچھلی کئی دہایوں  کے دوران نہ صرف اپس میں جنگ جدل کا بازار گرم رکھا بلکہ فقہی ، معاشرتی ،علاقائی ،نسلی تفرقات کو پروان چڑھیا .اہل مشرق نے عرب لیگ بنائی اور سرحدوں کی اسیی لکیریں کھنچیں کہ ایک دوسرے پہ شک کی نگاہیں ڈالیں .پھر چین نہ آیا تو ایک دوسرے کا نام نشان مٹنے کی ٹھان لی.آج یہ سب کچھ اس تخلیق کی گئی جگہ (space ) کا نتیجہ ہے.کہ  نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر خون سے اٹھکا ہوا ہے
معاشرے اس طرح وجود میں نہیں اتے . اس طرح کے معاشرے وقتی طور وجود برقرر رکھتے ہیں. جب اہل مغرب مزدور کے حقوق متین کر رہے تھے اور تعلیم و تربیت کے معیار بنا رہے تھے.یونیورسٹیز ، تجربہ گاہیں ،ٹیکنالوجی میں جدت لا رہے تھے.. تو عرب معاشرہ اس مزدور کے حقوق کو پامال کر کے اونچی اونچی بلڈنگ بنا رہا تھا. اور شیعہ سنی کو اور سنی شیعہ کو مٹانے کا پلان بنا رہا تھا.بحثیت مسلمان مسلم دنیا اپنی تباہی کی خود ذمدار ہیں. مجھے یقین ہیں یہ انفردی طور پہ جینے اور عنان حکومت سنبھنلے کے عادی ہیں. یہ اپنے لہو کے دشمن ہیں.
آج کا مسلمان دشمنان اسلام کا دشمن کم اور دوست زیادہ ہے.اور پورے عالم اسلام میں پھیلی ہوئی آگ شائد تاریخ کو پھر زندہ کر دے.اور مسلم دنیا زبوں حالی کے باوجود تعمیر و ترقی کے جس راستے پہ نکلی تھے وہ راستہ نا بھول جاۓ .کاش آج امت مسلمہ میں امیرالمومین عمر راضی الله ہوتے .

Comments

Popular posts from this blog